The blessings of true repentance /سچی توبہ کی برکات /بركات التوبة الحقة

The blessings of true repentance

You must have read and heard this incident many times. Let us read this incident once with reference to the Holy Hadith.

In the hadith of Bukhari and Muslim, it is narrated from Hazrat Syedna Abu Saeed Khudri, may Allah be pleased with him, that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, killed him once. When he asked about the greatest scholar on earth, he was told about a monk (Abid). He came to him and said: I have killed ninety-nine. Will my repentance be accepted? He said: "No." The killer also killed him and completed the number of one hundred (100). Asked about the greatest scholar, he was told the address of a scholar, he reached out to him and said that I have killed a hundred (100). Can my repentance be accepted? The scholar said: Yes! What can be the barrier between you and repentance? Go, go to such and such place. There are some people who are worshipping Allah Almighty. You should worship Allah Almighty with them and do not go to your area because it is a bad place. So, he went to the area mentioned by the killer, the scholar. When he reached halfway, death overtook him, and the angels of mercy and torment differed about him. The angels of mercy said, "This man was repenting, turning his heart towards Allah Almighty." (So ​​he will be taken to Paradise) while the angels of torment said: He has done no good, (so he is the inmates of Hell). Then there came to them (from Allah) in the form of an angel man Did they make him a judge between them? He said: "Measure the two earths. This person (ie the killer) will be judged according to the land he is closest to when the angels measure him." He was closer to the land where he intended to go. So the angels of mercy took him. According to the narration of Muslim Sharif, the man was near the town of pious people. So he was made one of them. And it is narrated in Sahih Bukhari that Allah Almighty revealed to that land that goes away! And he said to the earth, Draw nigh! Then the angel said: Measure the two lands! (When measured) he was found near a pillow in the town of the righteous and he was forgiven. There is a tradition that he turned his heart towards the settlement of good people. Because of which he will be forgiven.

Dear friends No matter how many sins a person may commit, but when he repents and comes to the Divine Court for true repentance, his sins are forgiven. Therefore, it is narrated from Hazrat Abu Hurayrah that The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “If you continue to sin until they reach the heavens, then repent, then Allaah will accept your repentance.” (Sunan Ibn Majah)

The hadeeth is Qudsi. Allaah says (interpretation of the meaning): “O son of Adam! Arise towards me, my mercy will come to you and step towards you, my mercy will come running towards you. ”(Musnad Ahmad)

Hazrat Ibn Umar (may Allah be pleased with him) says that I heard the Blessed Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) saying that a person named “Kifl” of the Children of Israel did not fail to commit sins. Once a compelled woman came to him and gave him ninety dinars on the condition that he commit adultery with her. When he started dominating the woman, she started trembling and started crying. He asked the woman. '' Why are you weeping? Am I forcing you? ”So the woman said,“ No! I never did it, but today only necessity forced me to do it. "He said," You are doing today what you have never done before, go, what I have given you. Yes, it is yours swear to God! I will never disobey Allah Almighty after today. ”Then he passed away that night. In the morning, it was written on his door that Allah Almighty forgave Kifl.
(Sunan al-Tirmidhi)


Jannatul Baqi - IslamicLandmarks.com
Hazrat Syedna Abu Saeed Khudri ...............................................................................................................................


سچی توبہ کی برکات

یہ واقعہ آپ نے کافی دفعہ پڑھا اور سنا ہوگا آئیے اس واقعہ کو حدیث مبارکہ کے حوالے سے ایک دفعہ پڑھتے ہیں۔

بخاری و مسلم شریف کی حدیث میں ہے جوکہ حضرتِ سَیِّدُنا ابوسعید خُدرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’تم سے پہلے زمانہ میں ایک شخص نے ننانو ے (99)قتل کئے پھر اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالِم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک راہب (عابد) کے متعلق بتایا گیا۔ یہ اس کے پاس پہنچا اور کہا: میں نے ننانوے قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قُبول ہوگی؟اس نے کہا:’’نہیں۔‘ ‘قاتل نے اسے بھی قتل کرکے سو(100)کی تعداد پوری کر دی۔پھر روئے زمین کے سب سے بڑے عالِم کے متعلق پوچھا ، تو اسے ایک عالِم کا پتہ بتایا گیا، یہ اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں نے سو(100) قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قُبول ہو سکتی ہے؟عالِم نے کہا:ہاں ! تمہارے اور توبہ کے درمیان کون رُکاوٹ بن سکتا ہے !جاؤ،فلاں ،فلاں جگہ چلے جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر رہے ہیں ،تم اُن کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرواور اپنے علاقے کی طرف نہ جاناکیونکہ وہ بُری جگہ ہے ۔ چنانچہ، وہ قاتل،عالم کے بتائے ہوئے علاقے کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ آدھے راستہ پر پہنچا تو اسے موت نے آلیا، اور اس کے متعلق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اِختِلاف ہو گیا،رحمت کے فرشتوں نے کہا،یہ شخص توبہ کرتاہوا،دل سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوا آیا تھا۔ (اس لئے اس کو جنت میں لے جائیں گے) جبکہ عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا،(اس لئے یہ جہنمی ہے) پھر ان کے پاس (اللہ کی طرف سے ہی ) ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں آیا، اُنہوں نے اس کواپنے درمیان فیصلہ کرنے والا بنالیا،تو اس نے کہا :’’ دونو ں زمینوں کی پیمائش کرو،یہ شخص (یعنی قاتل) جس زمین کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہوگا ،جب فرشتوں نے پیمائش کی تووہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ، رَحمت کے فرشتوں نے اُسے لے لیا ۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ وہ شخص ایک بالِشت نیک لوگوں کی بستی کے قریب تھا۔ تو اُسے انہیں میں کردیا گیا ۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس زمین کی طرف وحی فرمائی کہ دور ہو جا! اور اِس زمین سے فرمایا کہ قریب ہو جا! پھر اس فرشتے نے کہا : دونوں زمینوں کی پیمائش کرو !( جب پیمائش کی گئی) تو وہ نیک لوگوں کی بستی کے ایک بالِشت قریب پایا گیا تو اُسے بخش دیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اُس نے اپنا سینہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی بخشش ہوگی۔

پیارے دوستوں۔ انسان سے چاہے کتنے ہی گناہ کیوں نہ ہوجائیں لیکن جب وہ نادم ہوکر سچی توبہ کے لئے بارگاہِ الٰہی عزوجل میں حاضر ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کردئيے جاتے ہیں چنانچہ حضرتِ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اگر تم گناہ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ کرو تب بھی اللہ عزوجل تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔'' ( سنن ابن ماجہ)

حدیث قدسی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے،'' اے ابن آدم! میری طرف اٹھ،میری رحمت تیری طرف چل کرآئے گی اور تُومیری طرف قدم بڑھا،میری رحمت تیری طرف دوڑتی ہو ئی آئے گی۔'' (مسند احمد)

حضرتِ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عاالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہو ئے سنا کہ'' بنی اسرا ئیل کا ''کِفل'' نامی شخص گناہ کرنے سے نہ چُوکتا تھا۔ ایک مرتبہ اسکے پاس ایک مجبو ر عورت آئی تو اس نے اسے نوے دینار اس شر ط پر دیئے کہ وہ اس سے بدکاری کرے ۔جب وہ اس عورت پر حاوی ہونے لگا تو وہ عورت کانپنے لگی اور رونا شروع کردیا۔اس نے عورت سے پوچھا'' کیوں رورہی ہو؟ کیا میں تمہارے ساتھ زبردستی کررہاہوں؟''تو اس عورت نے کہا'' نہیں! میں نے یہ کام کبھی نہ کیا تھامگر آج صرف ضرو رت نے مجھے یہ کام کرنے پر مجبور کردیا۔'' اس نے کہاکہ''تم آج وہ کام کررہی ہو جو تم نے پہلے کبھی نہیں کیا،جاؤ،میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے وہ تمہارا ہے۔ خدا کی قسم! آج کے بعد میں اللہ عزوجل کی کبھی نا فرمانی نہیں کرو نگا۔'' پھر اسی رات اس کا انتقال ہوگیا، صبح اس کے دروازے پر لکھا ہواتھا کہ اللہ عزوجل نے کِفل کی مغفر ت فرمادی۔''
(سنن الترمذی)

............................................................................................................................................

بركات التوبة الحقة

لابد أنك قرأت هذه الواقعة واستمعت إليها عدة مرات ، فلنقرأ هذه الحادثة مرة واحدة بالإشارة إلى الحديث الشريف.

وفي حديث البخاري ومسلم عن رواية حضرة سيدنا أبو سعيد خضري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قتلت شخصاً من قبل. عندما سأل عن أعظم عالم على وجه الأرض ، قيل له عن راهب (عابد). جاء إليه وقال: لقد قتلت تسعة وتسعين ، فهل تقبل توبتي؟ فقال: لا ، فالقاتل قتله وأكمل مائة (100). ولدى سؤاله عن أعظم عالم ، قيل له عنوان عالم ، تواصل معه وقال إنني قتلت مائة (100) ، فهل تقبل توبتي؟ قال العالم: نعم! ما الحاجز بينك وبين التوبة ، اذهب ، اذهب إلى مثل هذا المكان ، فهناك بعض الناس الذين يعبدون الله تعالى ، يجب أن تعبد الله معهم ولا تذهب إلى منطقتك لأنها مكان سيء. فذهب القاتل إلى المنطقة التي ذكرها العالم. وعندما بلغ منتصف الطريق ، تجاوزه الموت ، واختلفت عنه ملائكة الرحمة والعذاب ، فقال ملائكة الرحمة: "كان هذا الرجل يتوب ، يحول قلبه إلى الله عز وجل". (فيؤخذ إلى الجنة) في حين قالت ملائكة العذاب: لم يفعل خيرا (لذلك هو سجناء الجحيم) ، ثم جاء إليهم (من الله) على شكل ملاك. هل جعلوه قاضيا بينهما؟ قال: "قم بقياس الأرضين. سيحكم على هذا الشخص (أي القاتل) حسب الأرض الأقرب إليه ، عندما تقيسه الملائكة". كان أقرب إلى الأرض حيث كان ينوي الذهاب. فأخذته ملائكة الرحمة. وفقا لرواية مسلم شريف ، كان الرجل بالقرب من بلدة المتدينين. لذلك أصبح واحد منهم. وعن صحيح البخاري عن الله سبحانه وتعالى أنزل تلك الأرض البعيدة! فقال للأرض تعال! ثم قال الملاك: قم بقياس الأرضين! (عند القياس) وجد بالقرب من وسادة في بلدة الصالحين وقد غفر له. هناك تقليد أنه قلب قلبه نحو تسوية الصالحين. بسبب ذلك سوف يغفر له.

أصدقائي الأعزاء مهما كَانَ عِنْدَهُ من الذنوبِ ، لكن عندما يَتوبُ ويجيءُ إلى المحكمة الإلهيةِ للتوبةِ الحقيقيةِ ، غُفِرَتْ ذنوبَه ، لذلك عن عن أبي هريرة رضي الله عنه قال النبي صلى الله عليه وسلم: (إذا واصلت الخطية حتى يصلوا إلى السماء ثم تابوا ، فسيقبل الله توبتك) (سنن بن ماجه).

حديث القدسي قال الله تعالى: (يا ابن آدم! قوموا نحوي ، ستأتي رحمتي إليكم وتخطوا نحوك ، سترحم رحمتي نحوك. "(مسند أحمد)

يقول حضرة ابن عمر رضي الله عنه إنني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إن من يدعى "كفل" من بني إسرائيل لم يخطئ. وما إن جاءت إليه امرأة مضطرة وأعطته تسعين ديناراً بشرط أن يخطب عليها الزنا ، وعندما بدأ يهيمن على المرأة بدأت ترتجف وبدأت بالبكاء ، وسأل المرأة. '' لماذا تبكي؟ فقالت المرأة: لا! لم أفعل ذلك قط ، لكن اليوم فقط أجبرتني الضرورة على القيام بذلك ". قال ،" أنت تفعل اليوم ما لم تفعله من قبل ، اذهب ، ما أعطيته لك. نعم إنه لك اقسم! لن أعصي الله عز وجل بعد اليوم ". ثم توفي في تلك الليلة ، وفي الصباح كتب على بابه أن الله قد غفر لكفل.
(سنن الترمذي)
        ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
/////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////

1 comment: