A scholar and disciple
A scholar was walking through the fields with one of his disciples.
As he walked, a rotten shoe appeared on a trail. It was clear that he belonged to a big man. After finishing labor in a nearby field, they will wear it and go home. The student said to Mr. Sheikh; Presence! How do you do all this cool stuff? They hide by moving their shoes around. If the elders turn on and find the shoe missing, their reaction will be interesting.
Sheikh Kamil said; Son, associating the joys of your heart with the worries of others is by no means a desirable act. My son, the favors of your Lord are upon you. Instead of enjoying such an ugly act, with a blessing from your Lord, you can reap happiness and bliss in another way at that time. Even for myself and this poor laborer. Take some cash out of your pocket and put it in both shoes. Then we will secretly see what will happen. The lucky student complied and both the teacher and the student hid behind the bushes.
The work was over, the elder husband turned on and put his foot in the shoe ... When the coin hit his foot, he took off his shoe with a rush and the coin came out of it. A strange sigh and hurriedly turned over the other shoe and the coins came out of it. Now the big men meet the eyes, turn the right and left eyes. Convinced that there are no dreams, the eyes fill with tears of gratitude. The elders fall in prostration. Both the teacher and the student hear that they are praying to their Lord.
My lord How can I thank you, my gracious lord? You knew my wife was sick, the children were hungry, and wages were falling. How did you help me With this money, the sick wife will also be treated and a few days' rations will also come. On the other hand, they were praying to their Lord with the same weeping and wailing and on the other hand, the mixed feelings of both the teacher and the student and their eyes were also full of tears. After a while, the disciple kissed and asked; respected teacher! I will never forget your lesson today. You have shown me the purpose of life and the way to real happiness. Sheikh Ji spoke knowing the opportunity, son! Not only giving money but also forgiving someone in spite of nature. Praying in absentia for Muslim brothers and sisters. In the absence of a Muslim brother or sister, his honor is protected.
ایک عالم اور شاگرد
ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔
چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔
شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔
کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔
میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے دست بوسی کرتے ہوئے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ شیخ جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔
No comments:
Post a Comment